’دنیا خطرے میں‘ کے عنوان سے امریکی کانگریس کی اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ امریکہ پاکستان کے نیوکلئیر پروگرام کو محفوظ بنانے کے لیے ٹھوس اقدامات کرے۔
یہ بھی کہاگیا کہ جنوبی ایشیا میں اگر موجودہ (نیوکلئیر اسلحے کی دوڑ کے) رجحانات سے چشم پوشی اختیار کی گئی تو پھر ممکنہ طور پر ایسے امکانات بڑھ حائيں گے جن سے القاعدہ نیوکلئير، بائیولاجیکل یا حیاتیاتی ہھتیار بنانے اور انکو امریکہ یا اسکے اتحادیوں کیخلاف استعمال کرنیکی صلاحت حاصل کرسکتا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ امریکہ کو پاکستان میں پاکستانی فوج اور انٹیلیجنس ایجنسیوں کی القاعدہ اور طالبان کیخلاف کارروائیوں میں کم سے کم دخل دینا چاہیے۔
فاٹا کے علاقے میں القاعدہ نےگذشتہ سال سے مقامی عسکریت پسندوں سے اپنے تعلقات مضبوط کر لیے ہیں اور علاقہ اسکے درمیانی درجے کی قیادت سے بھرا پڑا ہے اور جنہیں بہت سی ایسی سہولیات حاصل ہیں جوگيارہ ستمبر کے حملے کے وقت انہیں افغانستان میں حاصل تھیں |
پاکستان کے متعلق گيارہ صفحات پر مشمتل حصے کو ’پاکستان دہشتگردی اور نیوکلئیر اسلحے کا چوراہا‘ کا عنوان دیا گیا ہے، جس کی ابتدا میں انسداد دہشگردی کے ایک سابق اہلکار کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ ’جیسے میں نے حکومت چھوڑی تو میں ایسے شواہد دیکھ کر ڈرگيا کہ القاعدہ نے اپنے لیے فاٹا میں محفوظ پناہ گاہ پھر سے قائم کرلی ہے۔‘
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ گيارہ ستمبر کے حملوں اور ان کے بعد افغانستان القاعدہ کیلیے ایک اہم پناہ گاہ ثابت ہوا تھا جبکہ پاکستان اس حملے میں ملوث کچھ اغوا کاروں کی گذرگاہ کے طور پر کام آيا تھا۔ تاہم رپورٹ میں ایک سینیئر امریکی انٹیلیجنس اہلکار کے حوالے سے کہا گیا کہ ’لیکن اب پاکستان کے قبائیلی علاقے القاعدہ کیلیے اہم پناہ گاہ بن چکی ہے۔‘
القاعدہ کیمیائي، حیاتیاتی، ریڈیولاجیکل، یا نیوکلیائي ہتھیار بنانے کی صلاحیت حاصل کرنے اور انہیں استعمال کرنے کی کوششیں جاری رکھے گا اور جب بھی اس نے سمجھا کہ اب اس نے نیوکلئیر ہتھیار بنانے کی صلاحیت حاصل کرلی ہے تو وہ امریکہ پر ان ہھتیاروں سے حملہ کرنے میں دیر نہیں کرے گا۔ |
اس میں فروری میں امریکہ کی نیشنل انٹیلیجنس رپورٹ کا حوالہ دیا گیا ہے جس میں کہاگیا تھا کہ ’القاعدہ کیمیائي، حیاتیاتی، ریڈیولاجیکل، یا نیوکلیائي ہتھیار بنانے کی صلاحیت حاصل کرنے اور انہیں استعمال کرنے کی کوششیں جاری رکھے گا اور جب بھی اس نے سمجھا کہ اب اس نے نیوکلئیر ہتھیار بنانے کی صلاحیت حاصل کرلی ہے تو وہ امریکہ پر ان ہھتیاروں سے حملہ کرنے سے گریز نہیں کرے گا۔‘
انسداد دہشتگردی کیلیے کام کرنے والے ایک اور انٹیلیجنس اہلکار کے حوالے سے کہا گیا کہ فاٹا کے علاقے میں القاعدہ نےگذشتہ سال سے مقامی عسکریت پسندوں سے اپنے تعلقات مضبوط کر لیے ہیں اور علاقہ اسکے درمیانی درجے کی قیادت سے بھرا پڑا ہے اور جنہیں بہت سی ایسی سہولیات حاصل ہیں جوگيارہ ستمبر کے حملے کے وقت انہیں افغانستان میں حاصل تھیں، اور یہ لوگ اب بھی امریکہ پر دہشتگرد حملے کا سب سے بڑا خطرہ بنے ہوئے ہیں۔‘
’پاکستان ایک نیوکلیائي اسلحہ رکھنے والا ملک ہے جسکے بم کے موجد، ڈاکٹر قدیر نے اپنے نیٹ ورک کے ذریعے نیوکلئیر ٹیکنالوجی مشرق وسطی سے لیکر ایشیا میں جنوبی کوریا اور لیبیا تک پھیلائي اور اسے حال ہی میں انصاف کے کٹہرے میں لایا گیا تھا۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ لیکن اب بھی ایسے پاکستانی سائنسدان موجود ہیں جو دوسرے ممالک یا دہسشتگردوں کو نیوکلیائي صلاحیت منتقل کر سکتے ہیں یا اس پر آمادہ ہوجائيں گے۔‘
رپورٹ میں دعوی کیا گیا ہے کہ پاکستان کے پاس پچاسی نیوکلئیر ہتھیار ہیں جو مکمل طور پر پاکستانی فوج کے کنٹرول میں ہیں۔ اور اگرچہ پاکستانی اور امریکی عملدار اس پر زور دیتے ہیں کہ پاکستان کے نیوکلئیر ہتھیار بیرونی یا اندرونی چوری سے بہت محفوظ ہیں لیکن القاعدہ اور طالبان جیسے اسلامی انتہاپسندورں کی پاکستانی نیوکلئیر ہتھیاروں تک رسائی کا خطرہ ایک حققیت ہے۔
اس کمیشن کی سفارشات میں امریکی کانگریس اور نو متخب صدر باراک اوبامہ سے پاکستان کیلیے ایک جامع اور اور نئی پالیسی وضع کرنے کیلیے کہا گیا ہے جسکے تحت پاکستان کو القاعدہ اور طالبان جیسی انتہاپسند تنظیموں کا قلع قمع کرنے اور پاکستان کی نیوکلیائي تنصبات کو محفوظ تر بنانے کیلیے مدد کرنے کو کہا گيا ہے۔
سفارشات میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ امریکی موجودگی سے پاکستان میں امریکہ مخالف اور پاکستانی قوم پرستانہ خیالات کو تقویت ملتی ہے جس سےگریز کرنے کی ضرورت ہے۔ سفارشات میں کہا گيا کہ پاکستان کے ہندوستان کیطرف سے سلامتی کے خدشات کو ختم کرنے کی اشد ضروت ہے۔
No comments:
Post a Comment