یہ نواے وقت کے پرنٹ پیپر میں شائع ہوا ہے
اتوار ، 30 اگست ، 2009
۔۔۔انتہائی ادب سے عرض ہے جسونت سنگھ کی کتاب کامل سچائی کو بیان کرتی ہے اور نہ ہی کوئی نیا موقف پیش کرتی ہے ان کی
تصنیف ’’جناح : بھارت، تقسیم آزادی‘‘ مختلف تاریخی واقعات سے دو نتائج اچھالتی ہے۔٭ محمد علی جناح ہندو مسلم اتحاد کی علامت تھے اور سیکولر رہنما تھے۔٭ تقسیم ہند کے ذمہ دار جناح نہیں بلکہ نہرو پٹیل اور کانگریس جماعت تھی۔قائداعظم ہندو مسلم اتحاد کی علامت تھے مگر ان کے سیکولر ہونے سے کیا مراد ہے اور خود یہ سیکولرازم کیا شے ہے؟ جس اصطلاح کا درست اردو ترجمہ تک دستیاب نہیں‘ مقتدرہ کے پاس بھی نہیں، بھارت میں سیکولرازم کے معانی ومفاہیم کی اپنی ایک ست رنگی ہے جسے برہمن مزاج ایک حال اور ڈھال کے طور پر بوقت ضرورت استعمال میںلاتا ہے تاکہ وہاں کی کثیرالقوامی مستقل اکائیوں کو ترنگے تلے رکھا جائے اسی مزاج کی یہ بھی ضرورت ہے کہ قائداعظم محمد علی جناح کو ایک سیکولر رہنما کے طور پر پیش کیا جائے تاکہ پاکستان کا مستقل وجود دو قومی نظریے کے مقدس سائبان سے باہر نکالا جا سکے۔ درحقیقت دو قومی نظریہ مسلمانوں کے وجود کیساتھ جڑا ہوا ہے جس کا مقصد کسی دوسری قوم کو سرنگوں یا پامال کرنانہیں بلکہ خود مسلمان کی مذہبی تاریخی اور تہذیبی ضرورت کی تکمیل کرنا ہے۔ یہ ایک مکمل اختیاری نظریہ ہے جسے ہندوؤں نے اپنی تنگ نظری اور تعصب سے مسلمانوں کیلئے ایک اضطراری مسئلہ بنا دیا۔ قائداعظم محمد علی جناح اس اختیاری نظریے اور اضطراری مسئلے کے درمیان ایک فطری تعلق بن کر مطلع تاریخ پر نمودار ہوئے وہ جسونت سنگھ کی کتاب کی ضرورت کو پورا نہیں کررہے تھے بلکہ تاریخ کے تدریجی ارتقاء میں صورت پذیر ہورہے تھے انہیں ایک عہد کے موقف کی قید میں رکھ کر جانچا اور پرکھا نہیں جاسکتا۔ ایسے تمام نتائج سیاسی ضرورتوں کو پورا کرتے ہیں تاریخی تقاضوں کو نہیں قائداعظم ہندو مسلم اتحاد کی علامت ایک متعین دور میں یقیناً رہے۔ تب بلبل ہند کہلاتی سروجنی نائیڈو نے انہیں ہندو مسلم اتحاد کا سفیر قرار دیا مگر جسونت سنگھ کچھ اور کہہ رہے ہیں۔محمد علی جناح 1945تک ہندو مسلم مسائل کو فرقہ پرستی کی نگاہ سے دیکھنے کے بجائے اسے قومی مسئلہ سمجھ کر حل کرنے کی کوشش کرتے رہے۔‘‘ بظاہر یہ نہایت مثبت پیرایہ اظہار ہے، مگر نہیں، اس میں تاریخی مغالطہ آرائی ہے۔ قائداعظم ہندو مسلم مسئلے کو فرقہ پرستی کی نگاہ سے ہرگز نہیں دیکھتے تھے مگر اسے قومی مسئلہ سمجھ کر بھی نہیں دیکھتے تھے بلکہ وہ دو قومی مسئلہ سمجھ کر اسے جانچتے تھے فرق صرف یہ ہے کہ 1945ء سے پہلے وہ ایک اور حل کو قبول کرنے کیلئے تیار تھے مگر 1945 کے بعد وہ دوسرے حل کی طرف متوجہ ہوئے گویا ہندو مسلم مسئلے کی نوعیت اور ادراک کے حوالے سے قائداعظم کی فکر ہر دور میں یکساں اور یک رنگ ہی رہی البتہ اسکے حل میں مختلف ادوار کی عملی ضرورتوں کا وہ قدرے لحاظ کرتے رہے یہ نکتہ یہیں واضح ہونا چاہیے کہ قائداعظم جب بھی ہندو مسلم اتحاد پر زور دیتے تو اس سے مراد فرقہ وارانہ اتحاد (جیسا کہ جسونت سنگھ کہتے ہیں) نہیں بلکہ دو قومی اتحاد تھا۔ دو قومی اتحاد جس میں ایک قوم دوسری سے متصادم حالت میں نہ ہو تب بھی مختلف اور منفرد ضرور ثابت ہوتی ہے گویا ہندو مسلم مسائل کا دو قومی اتحاد کے تناظر میں حل ڈھونڈنے کے متعین عرصے میں بھی ان کی دو قومی نظریے سے دوری نہیں جھلکتی کسی بھی دور میں نہیں۔ جہاں تک جسونت سنگھ کے اس نتیجے کا تعلق ہے کہ تقسیم ہند کے ذمہ دار جناح نہیں بلکہ نہرو پٹیل اور کانگریس جماعت تھی۔ تو اس میں وہ منفرد نہیں۔ بھارت کے ہندو مورخین بھی اس کا اعتراف کرتے آئے ہیں، ایس کے مجومدار بھی ان میں سے ایک ہیں اس نتیجے میں یہ باور کیا جاتا ہے کہ قائداعظم دراصل ہندو مسلم مسئلے کو قومی مسئلہ سمجھ کر حل کرنا چاہتے تھے مگر نہرو پٹیل اور کانگریس نے انہیں ایسا نہیں کرنے دیا۔ چنانچہ قائداعظم مایوس ہو کر ایک آزاد مملکت کو حل کی طرف متوجہ ہوئے۔ گویا مسلمانوں کی علیحدہ مملکت انکی آزاد منشاء کا نتیجہ نہیں بلکہ مایوسی کی پیداوار ہے۔ یہ تاریخ کی ایک غلط تعبیر ہے۔ قائداعظم مایوس ہو کر تبدیل نہیں ہوئے یہ ایک تدریجی عمل تھا ‘جسے ٹھیک اس طرح ظاہر ہونا تھا وہ ہندو تنگ نظری اور برہمن بالادستی کی حقیقت دنیا پر بے نقاب کرنا چاہتے تھے اس لئے ہندو مسلم مسئلے کے مشترکہ حل کی ہرکوشش میں شریک ہوتے۔ قائداعظم کے سوانح نگار اسٹنیے ولپرٹ نے بالکل درست تفہیم کی۔’’ (وہ قائداعظم) 1920میں کانگریس پر اپنا اعتماد کھو چکے تھے پھر ایک چوتھائی صدی بعد انہوں نے برطانیہ پر اعتماد کرنا اور اس سے امید کرنا ترک کردیا۔‘‘سوال یہ ہے کہ اسکے باوجود قائداعظم 1946ء میں کابینہ مشن کے تین اراکین اور ہندو رہنماؤں سے بات چیت کرتے کیوں نظر آتے ہیں جبکہ یہ مشن مسلمانوں پر ہندوؤں کی مستقل بالادستی کے علاوہ کچھ نہیں تھا۔ دراصل یہ آخری کیل تھی جو قائداعظم نے ہندو تعصب اور برطانوی جانبداری کو بے نقاب کرتے ہوئے ٹھونک دی تھی۔ یہاں تک کہ مولانا ابوالکلام آزاد کو تیس برس بعد منظر عام پر آنے والی اپنی کتاب ’’انڈیا ونس فریڈم‘‘ میں یہ اعتراف کرنا پڑا۔ ’’افسوس کیساتھ مجھے یہ کہنا ہوگا کہ یہ پہلا موقع نہیں تھا جب ہندو نے قومی مقصد کو زبردست نقصان پہنچایا۔‘‘ قائداعظم مایوس ہو کر ایک علیحدہ مملکت کی طرف راغب نہیں ہوئے، وہ اپنے ارادوں کو متشکل کرنے والے عظیم رہنماؤں میں سے تھے، واقعات کے بہاؤ میں بہنے والوں میں سے نہیں۔ کنتی مسحور کن حیرتیں ماضی کی چمکدار روشنیوں اور آج کے المناک اندھیروں سے جھانکتی ہیں کانگریس کیخلاف شکایتیں بڑھنے لگیں تو گاندھی پریشانی میں قائداعظم سے ملاقات کیلئے بے تاب ہوئے۔ انہوں نے انکار کردیا تب گاندھی نے ایک خط میں انہیں لکھا کہ وہ ممبئی میں موجود ان کی اقامت گاہ پر خود حاضر ہونے کو تیار ہیں۔ بالآخر اپریل 1938 میں ساڑھے تین گھنٹے پر محیط ملاقات سے گاندھی مایوس اٹھے یہاں تک کہ جواہر لال نہرو کو خط میں لکھا:’’میں کام کررہا ہوں مگر یہ خیال میرے لئے تکلیف دہ ہے کہ میں نے خود پر وہ اعتماد کھودیا ہے جو ایک ماہ پہلے تک مجھ میں تھا۔‘‘یہ ہیں قائداعظم محمد علی جناح، انہیں نہرو اور پٹیل کہاں دھکیل سکتے تھے وہ خود تاریخ کے صفحات پر ہندو رہنماؤں کو عریاں کرنا چاہتے تھے اور برہمن سامراجیت کے خواب کو چکنا چور بھی۔ جسونت سنگھ کی کتاب میں کچھ مثبت اعتراضات ضرور ہیں مگر بھارت میں اس کیخلاف ردعمل ایک مختلف معاملہ ہے جسے بی جے پی کی اندرونی کشاکش اور بھارتی سیاست میں پیدا ہونیوالے نئے پیچ وخم کے تناظر میں دیکھا جارہا یہ دلچسپ بحث آئندہ۔!
No comments:
Post a Comment