Wednesday, March 4, 2009

تھینک یو پریذیڈنٹ زردادی۔۔۔۔تھینک یو ویری مچ۔۔۔۔






وسعت اللہ خان 
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد

پاکستان کے تیسرے گورنر جنرل غلام محمد کو جیسے ہی بھنک پڑی کہ مجلسِ قانون ساز انہیں وفاقی اسمبلی کی برطرفی کے اختیارات سے محروم کر کے محض ایک نمائشی گورنر جنرل میں تبدیل کرنا چاہتی ہے تو غلام محمد نے پہلے وار کرتے ہوئے چوبیس اکتوبر انیس سو چون کو اسمبلی ہی توڑ دی اور وزیرِ اعظم محمد علی بوگرہ کو نئی حکومت کی تشکیل تک قائم مقام وزیرِاعظم میں تبدیل کردیا۔
برطرف اسمبلی کے سپیکر مولوی تمیز الدین روپوش ہوگئے اور پھر اچانک برقعہ میں چھپ کر سندھ چیف کورٹ میں چیف جسٹس کانسٹنٹائین کے سامنے گورنر جنرل کے فیصلے کو چیلنج کردیا۔مولوی تمیز الدین نے اس مقدمے کے لیے برطانوی وکیل ڈی این پرٹ کی خدمات حاصل کیں۔جنہیں حکومت نےگرفتار کرنے کی ناکام کوشش بھی کی۔
بحرحال جسٹس کانسٹنٹائین کی عدالت نے گورنر جنرل غلام محمد کے اسمبلی توڑنے کے فیصلے کو غیر آئینی قرار دے دیا۔حکومت نے سپریم کورٹ میں چیف جسٹس محمد منیر کی عدالت میں اپیل دائر کردی۔
مولوی تمیز الدین کے پاس مسٹر پرٹ کو سپریم کورٹ میں مقدمے کی فیس دینے کے پیسے نہیں تھے۔برطرف اسمبلی کے کسی ممبر نے بھی غلام محمد کے ڈر سے مولوی تمیز الدین کا مالی و اخلاقی ساتھ دینے سے گریز کیا۔چنانچہ مسٹر پرٹ نے ازراہ عنایت یہ مقدمہ بغیر فیس کے لڑا۔جسٹس منیر نے سندھ چیف کورٹ کا فیصلہ بدل دیا اور گورنر جنرل کی جانب سے اسمبلی توڑنے کے اقدام کو جائز قرار دے دیا۔
اس فیصلے پر عدالتی و سیاسی حلقوں میں خاصی تنقید ہوئی۔لیکن گورنر جنرل کی دلیل تھی کہ یہ فیصلہ عدالتِ عالیہ نے کیا ہے اس لیے ہم سب کو اس کا احترام کرنا چاہئیے۔
ستمبر انیس سو ستتر میں بیگم نصرت بھٹو نے جنرل ضیا الحق کے اقتدار سنبھالنے کے اقدام کو چیلنج کیا۔چیف جسٹس انوار الحق کے سپریم کورٹ نے حکومتی وکیل شریف الدین پیرزادہ کی یہ دلیل قبول کرلی کہ آئین معطل کیا گیا ہے منسوخ نہیں کیا گیا اس لیے ملک کو دوبارہ آئینی پٹڑی پر چڑھانے کے لیے نظریہ ضرورت کے تحت جنرل ضیاء الحق کو آئین میں ضروری ترامیم کی اجازت دی جائے۔یوں عدالت نے جنرل ضیاء الحق کے اقتدار سنبھالنے کے عمل کو جائز قرار دے دیا۔

اس فیصلے پر بھی خاصی تنقید ہوئی لیکن جنرل ضیا الحق نے کہا کہ یہ عدالت کا فیصلہ ہے جس کا احترام ہم سب پر لازم ہے
مارچ انیس سو اناسی میں چیف جسٹس انوارالحق کے سپریم کورٹ نے تین کے مقابلے میں چار کی اکثریت سے لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس مولوی مشتاق حسین کا یہ فیصلہ برقرار رکھا کہ ذوالفقار علی بھٹو نواب محمد احمد خان کے قتل کے مجرم ہیں اس لیے انہیں سزائے موت دی جاتی ہے۔
پیپلز پارٹی اور اکثر عالمی ماہرینِ قانون نے اس فیصلے کو بھٹو کا عدالتی قتل قرار دیا لیکن جنرل ضیاء الحق کا اصرار تھا کہ یہ فیصلہ انہوں نے نہیں بلکہ اعلٰی ترین عدالت نے کیا ہے۔لہذا فیصلے کا احترام ضروری ہے۔
سن دو ہزار میں چیف جسٹس ارشاد حسن خان کی سپریم کورٹ نے ظفر علی شاہ کیس میں جنرل پرویز مشرف کو اجازت دی کہ وہ ملک میں جمہوری عمل کو بحال کرنے کے لیے آئین میں ضروری ترامیم کرسکتے ہیں۔یوں عدالت نے جنرل مشرف کے اقتدار سنبھالنے کے عمل کو آئینی چھتری فراہم کردی۔جنرل مشرف کا اس فیصلے پر تنقید کرنے والوں کے لیے یہی جواب تھا کہ ہم سب کو سپریم کورٹ کا فیصلہ خوش دلی سے تسلیم کرلینا چاہئیے۔
پچیس فروری دو ہزار نو کو چیف جسٹس عبدالحمید ڈوگر کی قائم کردہ تین رکنی بنچ نے لاہور ہائی کورٹ کی جانب سے شریف برادران کی نااہلی کا فیصلہ برقرار رکھا۔صدر آصف علی زرداری نے ہنگامہ آرائی کرنے والوں کو نصیحت کی کہ یہ اعلٰی عدالتی فیصلہ ہے۔اور عدالتی فیصلے پر تنقید اور ایجی ٹیشن کسی کو زیب نہیں دیتا۔
صدر زرداری کے اس تاریخی جملے سے اور کچھ ہو یا نہ ہو جسٹس محمد منیر ، جسٹس مولوی مشتاق حسین، جسٹس انوارالحق اور جسٹس ارشاد حسن خان کے فیصلے متنازعہ نہیں رہے۔یوں مولوی تمیز الدین اور بیگم نصرت بھٹو کے مقدمے اور ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ جو ہوا وہ عین انصاف تھا۔
تھینک یو پریذیڈنٹ زردادی۔۔۔۔تھینک یو ویری مچ۔۔۔۔

No comments: