Thursday, March 19, 2009

Daily Pakistan Mar19,2009


1 comment:

Zafar Iqbal said...

salam
The idea of united struggle is so sweet that sooner it is concieved the political diabetes starts its symptoms.The night on Glory was enough to make Nawaz Sharif think that he is the only leader and imran qazi hussain etc were just told abput the decicion,though they accepted it but as a future note it shows the disability of our victorious leaders to create an atmosphere of stron confidence ...reasons being many in the recent and remote past.
just see

http://www.jasarat.com/2009/03/20/columns/details/02.gif

or

http://www.jasarat.com/unicode/detail.php?category=8&coluid=880




2009-03-20 00:00:00 PST وہ منزل ابھی نہیں آئی!
قاضی حسین احمد
14مارچ کولاہور ہائی کورٹ کا کراچی ہال وکلا سے کھچاکھچ بھرا ہوا تھا اور ان کا جوش و خروش دیدنی تھا۔ ہائی کورٹ بار کے نائب صدر نے نہایت پُرجوش خطاب کیا۔ اس موقع پر ہم سب نے اپنے اس دوٹوک مؤقف کا اعادہ کیا کہ جب تک پرویزمشرف کے 3نومبر2007ءکے غیر آئینی اور مجرمانہ اقدام کو واپس نہ لیا جائے گا‘ جس کے تحت اُس نے بطور چیف آف آرمی اسٹاف سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس کے تمام ججوں کو پی سی او کے تحت حلف لینے کا پابند بنایا تھا اور پی سی او کے تحت حلف نہ لینے کی پاداش میں چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری سمیت سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس کے تقریباً ساٹھ ججوں کو برطرف کردیا تھا‘ اُس وقت تک تحریک اور جدوجہد جاری رہے گی اور اس مقصد کے لیے 16مارچ سے شاہراہِ دستور پر دھرنا دیا جائے گا۔ اس خدشے کے پیش نظر کہ 15مارچ کو میری نظربندی کے احکامات جاری ہوجائیں گے اور اسلام آباد تک پہنچنے کے سارے راستے مسدود کردیے جائیں گی، میں 14مارچ کی شام ہی کو اس نیت کے ساتھ اسلام آباد چل پڑا کہ 16مارچ کو ان شاءاللہ شاہراہِ دستور پر ہزاروں خدا پرست مجاہد کارکنوں کے جلو میں نمودار ہوں گا اور وہاں پر2 نومبر 2007ءکی صورت میں عدلیہ کی بحالی کے لیے دھرنا دوں گا۔ اس مقصد کے لیے ہزاروں کی تعداد میں محبانِ خدا و رسول، عدل و انصاف کے بے غرض علَم بردار اور پُرعزم کارکنان پہلے ہی سرحد، پنجاب اور ملک کے مختلف حصوں سے اسلام آباد پہنچنا شروع ہوچکے تھے اور اسلام آباد اور راولپنڈی کے جماعت اسلامی اور اس کی برادر تنظیموں کے ذمہ داران راولپنڈی اور اسلام آباد میں عوامی قوت کے بھرپور مظاہرے اور دھرنے کی تیاری اور ساری رکاوٹوں کو ہٹانے کے انتظامات اور مشوروں میں مصروف تھے۔گرفتاری و نظربندی سے بچنے کے لیے جماعت اسلامی کے سیکریٹری جنرل سیدمنورحسن اور سرحد کے امیر سراج الحق بھی 14مارچ کو ہی اسلام آباد پہنچ گئے تھے اور تنظیمی رابطوں کے ساتھ دھرنے کے پلان کو حتمی شکل دے رہے تھے۔ہماری حکمت عملی کے تحت پنجاب کے امیر لیاقت بلوچ لاہور میں تھے اور انہیں لانگ مارچ کے ساتھ اسلام آباد آنا تھا۔ اسلام آباد پہنچنے کے بعد اپنی رہائش گاہ پر جانے کے بجائے میں اپنے ایک عزیز کے گھر چلا گیا اور ٹریس ہونے سے بچنے کے لیے اپنا موبائل نمبر بھی تبدیل کرلیا۔ 15مارچ کو اپنے عزیز کے گھر مختلف ٹی وی چینلز پر لاہور کے جی پی او چوک کے اردگرد اپنے مجاہد صفت کارکنوں کو وکلا کے ساتھ مل کر انتظامیہ کے ناجائز اور ظالمانہ ہتھکنڈوں کا مقابلہ کرتے دیکھا۔ اس دن لاہور میں دفعہ 144کی خلاف ورزی سب سے پہلے جماعت اسلامی نے کی اور اس کا قافلہ لیاقت بلوچ صاحب کی قیادت میں سب سے پہلے جی پی او چوک پر پہنچا۔ یہاں پر ہونے والی کشمکش میں جماعت اسلامی لاہور کے امیر اور اسلامی جمعیت طلبہ کے سابق ناظم اعلیٰ امیرالعظیم کا سر گیس شیل سے پھٹ گیا اور انھیں ہسپتال لے جایا گیا جہاں ان کے سر پر 9 ٹانکے لگائے گئی‘ لیکن ان کی ہمت و جرا¿ت کی داد دینا پڑتی ہے کہ اس کے فوری بعد وہ جدوجہد کے لیے میدان میں موجود تھے اور اپنے کارکنان کی قیادت کررہے تھے۔میں نے وکلا تحریک کے نمایاں لیڈر انورکمال کو سڑک پر گرا ہوا دیکھا اور لاہور ہائی کورٹ بار کے صدر جناب شاہد صدیقی کو دیکھا جو بے تحاشا آنسو گیس سے بے حال تھے۔شباب ملی لاہور کے صدر احمد سلمان بلوچ، جماعت اسلامی اور اس کی برادر تنظیموں کے کارکنان، وکلا اور سول سوسائٹی کے کئی لوگ جی پی او چوک پر ہونے والی کشمکش میں زخمی ہوئے۔ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ 12مارچ کو کراچی میں لانگ مارچ کے آغاز کے وقت وکلا کے ساتھ یہ جماعت اسلامی کی قیادت اور کارکنان تھے جنھوں نے مزاحمت کی اور گرفتاریاں پیش کیں‘ اور اگر پڑاو¿ اتنا دور نہ ہوتا تو شاید انتظامی رکاوٹیں وہاں بھی دھری کی دھری رہ جاتیں۔ اس دن کراچی میں نائب امیر جماعت اور پاکستان کے بزرگ سیاسی رہنما پروفیسر غفور احمد، سندھ کے امیر اسداللہ بھٹو، نائب امیر ڈاکٹر معراج الہدیٰ صدیقی، کراچی کے امیر محمد حسین محنتی، جنرل سیکریٹری حافظ نعیم الرحمن، سابق ایم پی ایز نصراللہ شجیع، یونس بارائی، حمیداللہ خان اور سیکڑوں کارکنان گرفتار ہوئے۔حیدرآباد اور سکھر میں بھی جماعت کی ضلعی قیادت کو گرفتار کرلیا گیا اور کارکنان حکومتی مشینری کے زیر عتاب رہے۔لانگ مارچ کے دنوں میں پنجاب اور سرحد کے کئی اضلاع میں جماعت کی ضلعی قیادت و کارکنان کوگرفتار و نظربند کیا گیا۔ 15مارچ کو جب جی پی او چوک میدانِ جنگ بنا ہوا تھا اور سیاسی کارکنان بالخصوص جماعت اسلامی کے لوگ اور وکلا لاٹھی چارج اور آنسو گیس کی شیلنگ کا مقابلہ کررہے تھے اور انھوں نے پُرعزم رہتے ہوئے انتظامیہ اور پولیس کو پسپا کردیا اور ان کی ہیبت ختم کردی تو ایسے میں خبر آئی کہ میاں نوازشریف بھی باہر سڑک پر نکلنے کی تیاری کررہے ہیں۔ نکلنے سے پہلے انھوں نے عوام کو اپنے ساتھ چلنے کی دعوت دی۔ میاں نوازشریف ماڈل ٹاو¿ن سے اپنے سیکڑوں کارکنوں کے ہمراہ نکلے تو بلاشبہ عوام کا ایک جم غفیر ان کے ساتھ نکل آیا، اس میں تمام جماعتوں کے کارکنان، وکلا، سول سوسائٹی اور عام انصاف پسند شہری بڑی تعداد میں شامل تھے۔مگر وکلا، مخلص و بے غرض سیاسی ورکروں اور سول سوسائٹی کو نظرانداز کرکے میڈیا پر وہ صرف میاں صاحب کی تحریک دکھائی دینے لگی جو کہ قرین انصاف نہیں ہے۔خود میاں نوازشریف نے بھی جی پی او چوک جہاں تمام لوگوں کو جمع ہونا تھا، جانے کے بجائے داتا دربار جاکر یہ تاثر دیا کہ یہ صرف ان کا شو ہے۔اس امر سے انکار ممکن نہیں کہ میاں صاحب تمام خطرات کو انگیز کرکے باہر نکلی‘ مگرچونکہ میں خود، جماعت اسلامی کے سیکریٹری جنرل سید منورحسن، عمران خان اور دیگر حضرات 14مارچ کو ہی اسلام آباد پہنچ گئے تھے تاکہ تحریک کے سب سے مشکل مرحلی”دھرنی“ کی تیاری کو حتمی شکل دیں اور تمام رکاوٹوں کو عبور کرکے پارلیمنٹ ہاو¿س کے سامنے پہنچیں، علی احمد کردکوئٹہ میں تھی‘ لہٰذا تمام جماعتوں کے کارکنان اور انصاف پسند شہریوں کا ان کی قیادت میں لانگ مارچ کے قافلے میں شریک ہونا فطری امر تھا۔ میں اس ساری صورت حال کو دیکھتا رہا اور بالآخر رات کے ایک بجے آرام کی نیت سے بستر پر لیٹ گیا کہ تقریباً ڈیڑھ بجے نجی ٹی وی چینل ARYکی طرف سے فون آیا کہ وزیراعظم صاحب قوم سے خطاب کرنے والے ہیں، آپ سے اس پر تبصرہ درکار ہے۔میں نے تبصرہ کرتے ہوئے اپنا مو¿قف دوہرایا کہ ہم نے وکلاءکے ساتھ مل کر طے کیا ہے کہ جب تک عدلیہ کو 2 نومبر 2007ءکی صورت میں بحال نہیں کیا جائے گا ہم دھرنا جاری رکھیں گے۔میں خود دھرنا دینے کے لیے گھر سے تیاری کرکے گیا تھا، میری اہلیہ نے دھرنے کی مناسبت سے سامان میرے بیگ میں رکھ دیا تھا۔ گڑ اور چنے بھی ایک بڑے ڈبے میں رکھ دیے تھے۔ہمارے کارکنان بھی پُرعزم تھے اور جذبہ¿ جہاد سے سرشار تھی۔ وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کی تقریر کے انتظار میں جب ٹی وی چینلز کا نظارہ کیا تو معلوم ہوا کہ دھرنے کی تحریک کو بھنگڑوں کی تحریک بنانے کی کوشش کی جارہی ہے۔مجھے خدشہ ہوا کہ عوامی تحریک ایک بار پھر کسی سازش کا شکار ہورہی ہی۔رات کے پونے تین بجے شہبازشریف صاحب کا فون آیا کہ میاں نوازشریف صاحب بات کرنا چاہتے تھے لیکن آپ کا ٹیلی فون نہیں ملا۔ ان کے ساتھ طے ہوا کہ وزیراعظم کی تقریر سن لیتے ہیں، اس کے بعد آپس میں مشورہ کرکے متفقہ مو¿قف اختیارکریں گے۔وزیراعظم کی تقریر سننے کے بعد قائد حزب اختلاف چوہدری نثارعلی صاحب سے بات ہوئی جو فرما رہے تھے کہ چوہدری اعتزاز صاحب اور وکلاءقیادت کے مشورے سے دھرنے اور لانگ مارچ کو ختم کرنے کا فیصلہ ہوا ہے اور میاں نوازشریف صاحب واپس لاہور تشریف لے گئے ہیں۔ میں نے انھیں یاد دلایا کہ طے ہوا تھا کہ عدلیہ کو 2 نومبر2007ءکی شکل میں بحال کرنے تک دھرنا دیا جائے گا۔ اگر 21 مارچ، ریٹائرمنٹ کی تاریخ تک عبدالحمید ڈوگر صاحب کو چیف جسٹس تسلیم کیا جاتا ہے تو کیا یہ پرویزمشرف کے 3 نومبر 2007ءکے غیر آئینی اقدام کو تسلیم کرنے کے مترادف نہیں ہوگا! اورکیا اسی دوران ہائی کورٹس اور سپریم کورٹ میں جس طرح یک طرفہ طور پر اپنے پسندیدہ افراد اور پیپلزپارٹی کے کارکنوںکو جج بناکر بٹھا دیا گیا ہی، ان کی موجودگی میں افتخار محمد چوہدری صاحب عوام کی توقعات پر پورا اترسکیں گی؟کیا لاپتا افراد کے معاملے کو وہ اس انداز سے اٹھا سکیں گے جس انداز سے وہ اپنی برطرفی کے فیصلے سے پہلے اٹھا رہے تھی؟ اور کیا NRO کے بارے میں انصاف کے تقاضے پورے کیے جاسکیں گی؟ اس طرح کے بے شمار سوالات پیدا ہوں گے اور خدشہ ہے کہ عدل و انصاف اور دستور اور قانون کی بالادستی کے لیے وکلا نے جو مثالی قربانی دی ہے وہ بارآور نہیں ہوسکے گی۔ چوہدری نثار علی صاحب نے کہا کہ انھیں بھی تحفظات ہیں لیکن وکلاءکی قیادت نے اس فیصلے کو منظور کرلیا ہے اس لیے ہم نے بھی دھرنا دینے کا ارادہ ترک کردیا ہی۔اس کے بعد عمران خان سے رابطہ ہوا تو انھوں نے بھی اس پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا۔ بہت سے وکلا رہنماو¿ں نے بھی اس پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا اور اسے آئیڈیل صورت حال قرار نہیں دیا‘ اور چیف جسٹس کے ترجمان نے تو برملا اس خدشے کا اظہار کیا کہ نہیں معلوم کہ اس میں نیک نیتی شامل ہے کہ نہیں، اور پارلیمنٹ کے ذریعے چیف جسٹس کی مدت ملازمت یا اختیارات میں کمی کی کوشش تو نہیںکی جائے گی جیسا کہ پرویزمشرف چاہتے تھے۔اور اب ایک دن گزرا ہے کہ خود چوہدری اعتزاز احسن کو اقتدار کے ایوانوں میں سازشوں کی سرسراہٹ سنائی دے رہی ہی۔ بہرحال چونکہ اس فیصلے کو وکلا قیادت اور خود چیف جسٹس نے قبول کرلیا لہٰذا ہم نے بھی اپنے تحفظات کے باوجود اسے قبول کرلیا ہے۔مگر یہ سب باہمی مشاورت سے ہوتا تو مستقبل میں باہمی اعتماد کے لیے مفید ثابت ہوتا۔ اس پس منظر میں یہ سوال ہمارے سامنے ہے کہ مستقبل میں ایک دوسرے پر کیسے اعتماد کیا جاسکے گا۔ اس سے قبل میاں نوازشریف نے اے پی ڈی ایم کے ساتھ کیے گئے اپنے وعدوں کو پورا نہیں کیا تھا، اور اس موقع پر بھی انھوں نے فیصلہ کن لمحات میں اس تحریک میں شامل دوسری قوتوں کو اعتماد میں نہیں لیا اور چوہدری اعتزاز احسن کو ساتھ ملا کر اسے وکلاکا فیصلہ بناکر پیش کیا اور یکطرفہ طور پر لانگ مارچ کے خاتمے کا اعلان کردیا جسے بادل نخواستہ وکلا قیادت اور دوسرے لوگوں کو قبول کرنا پڑا۔ اس سے یہ تاثر بھی ابھرا کہ شاید یہ سب کچھ اندرونی و بیرونی قوتوںکی مداخلت اور ایک ڈیل کے تحت ہوا ہے۔یاد رہے کہ اس سے پہلے لانگ مارچ کے موقع پر میاں نوازشریف کے مشورے سے چوہدری اعتزاز احسن نے دھرنا نہ دینے کا اعلان کیا تھااور بعد میں پتا چلا تھا کہ ایسا آصف زرداری کی خواہش پر کیا گیا تھا جن سے اُس وقت میاں نوازشریف کی خوب گاڑھی چھنتی تھی۔ یہاں اس بات کا ذکر کرنا دلچسپی سے خالی نہ ہوگا کہ جب ایک طرف میاں نوازشریف لانگ مارچ کے ذریعے حکومت پر دباو¿ بڑھا رہے تھے اور دوسری طرف حکومت اور بیرونی قوتوں کے ساتھ رابطے میں تھی، اور گوجرانوالہ پہنچنے سے پہلے وزیراعظم سے دومرتبہ بات کرچکے تھی،اور میاں شہبازشریف کے بارے میں خبریں آرہی تھیں کہ وہ اسلام آباد میں مقتدر قوتوں کے ساتھ رابطے میں ہیں،آصف زرداری کا کیمپ آخر وقت تک کوشش کررہا تھا کہ کسی طریقے سے میاں برادران کو تنہا کردیا جائے اور ایوانِ صدر سیاسی شکست سے بچ جائے۔چنانچہ اس حوالے سے 15مارچ کی شام اور رات تک لانگ مارچ اور دھرنے سے نمٹنے کی حکمت عملی بنانے والی اہم حکومتی شخصیات نے مختلف ذرائع سے مجھ سے ملنے کی خواہش کا اظہار کیا اور بات چیت کی پیش کش کی‘ مگر میں نے اس سے انکار کردیا اور دھرنے کے حوالے سے وکلا اور عوام سے کی گئی کمٹمنٹ پر قائم رہا۔ 16مارچ کودوپہر کے وقت جماعت اسلامی کے ہزاروں کارکنان آبپارہ چوک میں ہدایات کے منتظر تھے۔ادھر میڈیا نے افتخار محمد چوہدری کی بحالی پر جشن کا سماں باندھ دیا تھا۔ ہم نے کہا کہ یقینا افتخار محمد چوہدری کی بحالی ایک پیش رفت ہے اور صحیح سمت میں ایک مثبت قدم ہے لیکن عوام کوعدل وانصاف کی بالادستی کی جو نوید سنائی گئی ہے کیا افتخار محمد چوہدری صاحب نئے ججوں کے جھرمٹ میں رہ کراس کو سچا ثابت کرسکیں گی؟ ہائی کورٹس اور سپریم کورٹ کے سامنے اہمیت کے حامل مقدموں کے علاوہ ذیلی عدالتوں میں اس وقت ہزاروں مقدمات فیصلہ طلب ہیں، کیا ان کا جلد ہی میرٹ پر فیصلہ ہوسکے گا؟ ذمہ دار افراد کے سامنے بھی جب عدالت کے بارے میں کوئی شکایت پیش کی جاتی ہے تو وہ اپنی بے بسی کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ عدالتوں میں تو آج کل پیسہ چلتا ہے۔کسی غریب اور مظلوم شخص کے لیے عدل کا کوئی دروازہ کھلا ہوا نہیں ہے۔جب سے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں حکومت ِپاکستان امریکا کی صفِ اوّل کی حلیف بنی ہی، ملک میں مکمل طور پر امریکی خفیہ ایجنسیوں کی عمل داری ہے۔کسی بھی شہری کو اگر امریکی خفیہ ایجنسی نشان زد کردیتی ہے تو اسے کوئی پاکستانی عدالت انصاف فراہم نہیں کرسکتی۔ ہزاروں پاکستانی شہری اس وقت اپنے عزیزوں سے چھین لیے گئے ہیں اور ان کے لواحقین دادرسی سے محروم ہیں۔کئی اور سوال بھی ہمارے سامنے ہیں کہ پرویزمشرف نے دو دفعہ دستور توڑا، کیا انھیں کٹہرے میں لایا جائے گا،12مئی اور جامعہ حفصہ و لال مسجد کے مقتولین کا حساب لیا جائے گا، این آر او کے تحت معاف کرایا گیا اربوں روپیہ واپس ہوگا؟کیا چیف جسٹس آف پاکستان افتخارمحمد چوہدری وکلا اور عدلیہ کے عملے کے ساتھ مل کر پاکستانی عوام کو عدل وانصاف کی نئی صبح طلوع ہونے کا کوئی مژدہ¿ جانفزا سنانے کی اہلیت کے حامل ہوگئے ہیں جبکہ انتظامیہ اور سیاسی قیادت اپنی پرانی ڈگر پر قائم ہیں اور عدلیہ میں بھی بڑی حد تک ان کے منظورِ نظر لوگوں کا سکہ چلتا ہے۔چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کو یہ بھی فیصلہ کرنا ہے کہ کیا وہ عبدالحمید ڈوگر کو آئینی چیف جسٹس مانتے ہیں اور ان کے فیصلوں کی کیا حیثیت متعین کرتے ہیں‘ جبکہ انھوں نے اپنی کئی تقاریر میں کہا تھا کہ ایمرجنسی کو غیرقانونی قرار دینے والے سپریم کورٹ کے سات رکنی بینچ کے فیصلے کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف ایکشن لیا جائے گا۔ اٹارنی جنرل کا یہ بیان معنی خیز ہے کہ گڑے مُردوںکو نہیں اکھاڑا جائے گا۔ اعتزاز احسن بھی کہتے ہیں کہ امید ہے افتخار محمد چوہدری این آر او کا مقدمہ خود نہیں سنیں گے۔اس طرح ابھی سے پیپلزپارٹی کی قیادت کو تحفظ فراہم کرنے کی باتیں شروع ہوگئی ہیں۔ حکومت کی طرف سے جو اعلامیہ جاری ہوا ہے اس کے مطابق افتخارمحمد چوہدری سمیت برطرف شدہ ججوں کو تو 3 نومبر 2007ءسے پہلے والی پوزیشن پر بحال کردیا گیا ہے لیکن عدلیہ کو 3 نومبر سے پہلے والی پوزیشن پر بحال نہیں کیا گیا۔ عبدالحمید ڈوگر کو 21 مارچ 2009ءتک جائز چیف جسٹس تسلیم کرلیا گیا ہے اور اس دوران میں ان کی منظوری سے پیپلز پارٹی اور آصف زرداری کے جن من پسند افراد کو ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں جج بنایاگیا ہے وہ بدستور ان مناصب پر براجمان رہیں گے۔مستقبل میں عدلیہ پر انھی لوگوں کی عملداری قائم ہوگی‘ تو کیا قوم انصاف کی منزل کو پاسکے گی۔ فیض احمد فیض یاد آتے ہیں جنھوں نے کہا تھا: یہ داغ داغ اجالا یہ شب گزیدہ سحر وہ انتظار تھا جس کا یہ وہ سحر تو نہیں یہ وہ سحر تو نہیں جس کی آرزو لے کر چلے تھے یار کہ مل جائے گی کہیں نہ کہیں اور اس نظم کے آخر میں انھوں نے کہا : کہاں سے آئی نگارِ صبا کدھر کو گئی ابھی چراغ سرِ رہ کو کچھ خبر ہی نہیں ابھی گرانی¿ شب میں کمی نہیں آئی نجاتِ دیدہ و دل کی گھڑی نہیں آئی چلے چلو کہ وہ منزل ابھی نہیں آئی





Zafar Iqbal Dr